کیا مونچھیں رکھنا جائز ہیں
سوال
کیااسلام میں مونچھیں رکھنا جائز ہے؟ نیز جو بات لوگوں میںمشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب
مونچھ کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں لگ رہی ہو شرعاً درست نہیں، البتہ مونچھیں بڑی ہونے کے سبب کھانے پینے کی اشیاء میں لگ جائے تو کھانے پینے کی اشیاء مکروہ نہیں ہوں گی، لیکن ایک مسلمان کو اپنے نبی سرکاردوعالم ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے داڑھی بڑھانی چاہیے اور مونچھیں کتروانی چاہییں۔
حضرت عمرؓ کی مونچھیں بھی بیان کردہ شرعی حدود میں ہی ہوا کرتی تھیں۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2728):
"و قيل: الأفضل حلقه؛ لحديث: "و الأكثرون على القص"، بل رأى مالك تأديب الحالق، و ما مر عن النووي يخالفه قول الطحاوي عن المزني و الربيع، أنهما كانا يحفيانه، و يوافقه قول أبي حنيفة وصاحبه: الإحفاء أفضل من التقصير. وعن أحمد أنه كان يحفيه شديدًا، ورأى الغزالي وغيره، أنه لا بأس بترك السبالين اتباعًا لعمر وغيره، و لأن ذلك لايستر الفم، و لايبقى فيه غمر الطعام إذ لايصل إليه، و كره الزركشي إبقاءه لخبر صحيح لابن حبان: «ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم المجوس فقال: "إنهم قوم يوفرون سبالهم، ويحلقون لحاهم فخالفوهم»" اهـ.
و الظاهر أن المراد بالسبال الشوارب أطلق عليها مجازًا أو حقيقة على ما في القاموس. والله أعلم."
(كتاب الأطعمة، ط: دارالفكر بيروت)
فقط والله أعلم