بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم
نکاح کے ولی اور وکیل میں فرق
’’ولی‘‘ اور ’’وکیل‘‘ شرعی و فقہی اصطلاحات ہیں، جو ایک ہی فرد میں بھی جمع ہوسکتی ہیں، یعنی ایک ہی شخص ولی اور وکیل دونوں ہوسکتاہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں الگ الگ ہوں۔ ’’ولی‘‘ ولایت سے ہے اور ولایت سرپرستی کو کہتے ہیں، نکاح میں دولہے یا دولہن کا ولی اس دولہے یا دولہن کا وہ سرپرست ہے جس کو شریعت نے سرپرست مقرر کیا ہے ، یعنی اگر بیٹا ہو (مثلاً: کسی بیوہ یا مطلقہ کا نکاح ہورہاہو) تو سب سے پہلے ولایت بیٹے کو حاصل ہوگی، اگر وہ نہ ہو تو پوتے کو۔ اور اگر وہ نہ ہو یا کسی کنواری کا نکاح ہورہاہو تو باپ ولی ہوگا، وہ نہ ہو تو دادا۔ اور اگر وہ بھی نہ ہو تو سگا بھائی، اور اگر وہ بھی نہ ہو تو باپ شریک بھائی۔ اور اگر وہ بھی نہ ہو تو سگے بھائی کا بیٹا (بھتیجا)، اور اگر وہ نہ ہو تو باپ شریک بھائی کا بیٹا، اور اگر وہ نہ ہو تو سگا چچا، وہ بھی نہ ہو تو چچا کا بیٹا …الخ۔ یعنی ولایت کی وہی ترتیب ہے جو میراث میں عصبہ بنفسہ کی ہوتی ہے۔ عصبہ اس قریبی خونی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے رشتے میں عورت کا واسطہ درمیان میں نہ آتاہو، وہ درجہ بدرجہ ولی بنتاہے۔
’’وکیل‘‘ وکالت سے ہے اور وکالت کہتے ہیں کسی کا معاملہ اس کے نمائندے کی حیثیت سے انجام دینا یا پیش کرنا۔ نکاح میں دولہے یا دولہن کا وکیل وہ شخص ہوتا ہے جس کو دولہے یا دولہن نے اپنا نکاح کرانے کی اجازت دی ہو۔
عموماً دولہا مجلسِ عقد میں موجود ہوتاہے اور اپنا عقد خود انجام دیتاہے، اس لیے اس کے ولی اور وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ بعض صورتوں میں اس کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ جب کہ لڑکی کے لیے پردے وغیرہ کے شرعی احکام اور فطری حیا کی وجہ سے دلہن عقدِ نکاح کی مجلس میں حاضر بھی نہیں ہوتی اور اپنا عقد خود انجام بھی نہیں دیتی، لہٰذا اس کے لیے ولی اور وکیل کی ضرورت ہوتی ہے، اب نکاح میں ولی اور وکیل دونوں ایک ہی شخص ہوسکتے ہیں، یعنی لڑکی کا باپ جو شرعی طور پر از خود ولی/ سرپرست ہوتاہے وہی نکاح کے عقد کی انجام دہی کے لیے دلہن کی طرف سے وکیل بن جائے اس کی بھی اجازت ہے۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی کے والد (ولی) کی موجودگی میں کسی اور کو عقدِ نکاح کا معاملہ انجام دینے کا وکیل بنادیا جائے، مثلاً: والد کی موجودگی میں چچا یا بھائی کو نکاح کا وکیل بنا دیا جائے، اس کی بھی اجازت ہے۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دولہے یا دولہن کا ولی تو شرعی طور پر طے ہے، یعنی ولایت غیر اختیاری معاملہ ہے جب کہ وکیل بنانا دولہے یا دولہن کے اپنے اختیار میں ہے۔
حوالہ:
▪الموسوعة الفقهية الكويتية، 41/275
▪فتوی جامعہ بنوری ٹاون کراچی 144010200769
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ