میت کے لواحقین چوں کہ میت کی تجہیز وتکفین اور دیگر امور میں مشغول رہتے ہیں اور ان کو اپنے عزیز کے بچھڑ جانے کا غم بھی لاحق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عمومًا ان کو اپنے کھانے پینے اور اس کے انتظام کرنے کی نہ تو فرصت میسر آتی ہے اور نہ ہی اس کی طرف توجہ رہتی ہے، اس لیے شریعت نے اہلِ میت کے دیگر عزیز واقارب اور پڑوسیوں کے ذمّے ایک دن رات کا کھانا اہلِ میت کے ہاں بھیجنا مستحب قرار دیا ہے، البتہ اس حوالے سے چند باتوں کو سمجھنا ضروری ہے:
1= اہلِ میت کے ہاں یہ کھانا بھیجنا مستحب ہے، اس کو اسی درجے میں رکھنا چاہیے، اس کو مستحب سے آگے بڑھا کر لازم سمجھنا شریعت کے خلاف ہے۔
2= اس کھانا بھیجنے میں ریا کاری نہیں ہونی چاہیے، اور نہ ہی بدلے کی فکر ہونی چاہیے کہ کھانا اس لیے بھیجا جائے کہ کل کو یہ لوگ بھی ہمارے ہاں ایسے موقع پر کھانا بھیجیں گے، بلکہ صرف اور صرف اللہ کے لیے اور دوسروں کے ساتھ خیرخواہی کے جذبے کے تحت یہ عمل سرانجام دینا چاہیے۔
3= یہ کھانا میت کے لواحقین کے لیے ہوتا ہے، اسی طرح وہ لوگ جو میت کی تجہیز وتکفین اور دیگر اہم امور میں مشغولیت کی وجہ سے کھانے کے لیے گھر نہ جاسکتے ہوں، یا جو میت کی تعزیت کے لیے دور سے آئے ہوں اور اتفاقی طور پر کھانے کا وقت ہوجائے اور وہ کھانے کے لیے گھر نہ جاسکتے ہوں تو ان کے لیے بھی کھانے کی گنجائش ہے، اگرچہ کوشش یہی کرنی چاہیے کہ میت کے لواحقین پر اپنے کھانے پینے کا کسی طرح بوجھ نہ ڈالا جائے اور نہ ہی بلاوجہ اس قدر وہاں بیٹھا جائے کہ کھانے کا وقت ہوجائے۔ ان کے علاوہ دیگر حضرات کے لیے اس کھانے میں شرکت کرنا ہرگز درست نہیں بلکہ سنت کے خلاف ہے، اس سے ان حضرات کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے کہ جو قریب ہی رہتے ہیں یا جو کھانے کے لیے گھر جاسکتے ہیں لیکن پھر بھی بلا کسی مجبوری کے میت کے ہاں کھانا کھاتے ہیں اور ان پر کھانے کا بوجھ ڈالتے ہیں، اسی رسم کا نتیجہ ہے کہ میت کے لواحقین کو تعزیت کے لیے آنے والے ’’مہمانوں‘‘ کی فکر لگ جاتی ہے، جس کے لیے وہ پریشان ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ اس کے لیے قرضے بھی لیے جاتے ہیں، بلکہ اسی غیر شرعی عمل کو سر انجام دینے کے لیے باقاعدہ انجمنیں اور کمیٹیاں بنادی جاتی ہیں جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ تعزیت کے لیے آنے والے ’’مہمانوں‘‘ کو سہولت سے کھانا کھلایا جاسکے اور میت کے لواحقین پر بوجھ نہ آئے، اگر غور کیا جائے کہ یہ ساری خرابی اسی لیے پیدا ہوئی کہ میت کے لواحقین اور تعزیت کے لیے آنے والے حضرات یہی سمجھتے ہیں کہ تعزیت کےلیے آنے والوں کو کھانا کھلانا چاہیے، حتٰی کہ میت کے لواحقین تو لوگوں کو باقاعدہ کھانے کی دعوت دیتے ہیں، حالاں کہ میت والوں کی طرف سے تعزیت کے لیے آنے والوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا ہی شریعت کے خلاف ہے۔ افسوس بلکہ تعجب کی بات ہے کہ جن میت کے لواحقین کو غم لاحق ہوتا ہے، جس کے لیے ان کو سہارا دینے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے، انہی پر کھانے پینے کا بوجھ ڈالا جاتا ہے، یہ عقلمندی بلکہ انسانیت کا بھی تو تقاضا نہیں ہوسکتا!! اور پھر ایک عام سی بات یہ بھی ہے کہ یہ کونسا موقع ہے میت کے گھر کھانا کھانے کا؟؟ دعوتیں خوشی میں ہوا کرتی ہیں یا غمی میں؟؟ یاد رہے کہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ میت کے لواحقین کی جانب سے تعزیت کے لیے آنے والوں کی دعوت کرنا اور ان کے لیے کھانا پکانا سراسر ناجائز اور بدعت ہے، اور اسی طرح اس ناجائز کام کے لیے انجمن اور کمیٹی بنانا بھی ناجائز ہے، کیوں کہ یہ کام ہی غیر شرعی ہے چاہے اس پر میت کے لواحقین راضی ہی کیوں نہ ہوں۔ اس رسم نے ہمارے معاشرے میں بڑی خرابیاں پیدا کر رکھی ہیں، اور صورتِ حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جس غمی میں میت کے لواحقین کو تسلی دینے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے، آج وہی غمی معاشرے کے لیے بوجھ بنتی جارہی ہے حتٰی کہ لوگوں کے لیے اپنے کسی عزیز کا مرنا بھی ایک مستقل مسئلہ بلکہ بہت بڑی پریشانی بن چکی ہے، یاد رہے کہ یہ طرزِ عمل بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ مؤمن کی شان نہیں اور نہ ہی یہ اسلامی معاشرے کی پہچان ہے۔
4= شریعت نے اہلِ میت کے ہاں صرف ایک دن رات کھانا بھیجنا مستحب قرار دیا ہے، اس لیے آجکل جو تین دن تک دن رات کھانے بھیجنے کا رواج ہے اور اس کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے؛ یہ شریعت کے خلاف ہے، بلکہ آجکل تو تعزیت میں آنے والوں کے لیے میت کے لواحقین کی جانب سے تین دن تک دعوت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، حتٰی کہ اسی مقصد کے لیے باقاعدہ انجمن اور کمیٹی بنائی جاتی ہے جو کہ تین دن تک کھانا کھلانے کا اہتمام کرتی ہے، یاد رہے کہ یہ بھی شریعت کے سراسر خلاف ہے۔
5= اگر میت کے گھر والے اپنا کھانا خود ہی پکاسکتے ہوں تو یہ بھی بالکل جائز ہے، اس سے ان لوگوں کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ تین دن تک میت کے گھر کھانا پکنا یا چولہا جلنا ہی جائز نہیں۔
6= تعجب کی بات یہ ہے کہ تعزیت کے لیے جانے والے لوگ مہمان بن کر ہی کیوں جاتے ہیں کہ کھانے کا بوجھ بھی میت کے اہل خانہ پر ڈال دیا جائے، بلکہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ باقاعدہ اہل میت سے کھانا طلب کیا جاتا ہے، یہ کیسی تعزیت ہے!! ان بدعات اور غیر شرعی رسومات کا خاتمہ ضروری ہے جو کہ قربانی دیے بغیر مشکل ہے۔
(رد المحتار، احکامِ میت، امداد الاحکام، فتح القدیر، احسن الفتاویٰ، خیر الفتاویٰ، کفایت المفتی)