Masjid e Zarar history in Urdu
مسجد ضرار کا پس منظر
رسول اللہ ﷺ اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی سازشیں ہوتی تھیں،اسی وجہ اس کو گرایا گیا قرآن مجید میں اس منافقین کی مسجد کو مسجد ضرار (نقصان دینے والی مسجد) کہا گیا ہے.
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا وَتَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه مِنْ قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَا اِلَّا الْحُسْنَی وَاللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَکَاذِبُوْن} [التوبة: ۱۰۷]
اور وہ جنہون نے مسجد بنائے نقصان پہچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اسکے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اسکے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کہائیں گے کہ ہم نے تو بہلائے چاہے اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جہوٹے ہیں ۔۔۔
اس مسجد میں تم کبہی کہڑے نہ ہونا
بے شک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کے بنیاد پرہیزگارے پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہیں کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں
آیت کا شان نزول
یہ آیت ایک جماعت منافقین کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مسجدے قبا کو نقصان پہنچانے اور اسکی جماعت میں تفرق کرنے کیلئے اس کی قریب ایک مسجد بنائ تھی اس میں ایک بڑی چال تھی وہ یہ ابو عامر جو زمانا جاہلیت میں نصرانی راہب ہوگیا تھا سید عالم صہ کے مدینہ طیب تشریف لانے پر حضور سے کہنے لگا : یہ کون سا دین ہے جو آپ لائے ہیں حضورصہ نے فرمایا کہ میں ملت حنفیہ دین ابراہیم لا یا ہوں کہنے لگا : میں اسی دین پر ہوں حضور نے فرمایا نہیں
اس نے کہا کہ آپ نے اس میں کچھ اور ملادیا ہے
حضور نے فرمایا کہ نہیں
میں خالص ملت لایا ہوں ابو عامر نے کہا : ہم میں سے جو جھوٹا ہو اللہ اسکو مسافرت میں تنہا اور بیکس کر کے ہلاک کرے. حضور نے آمین فرمایا لوگو نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا روز احد ابو عامر فاسق نے حضور سے کہا کہ جہاں کہیں کوئی قوم آپ سے جنگ کرنے والے ملیں گی میں اس کے ساتھ ہوکر آپ جنگ کروں گا چنانچہ جنگ حنین تک اس یہ ہے معمول رہا اور وہ حضور کی ساتھ مصروف جنگ رہا جب ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ مایوس ہوکر ملک شام کی طرف بہاگا تو اس نے منافقین کو خبر بہجی کہ تم سے جوسامان جنگ ہوسکے قوۃ وسلاح سب جمع کرو اور میرے لئے ایک مسجد بناؤ میں شاہے روم کے پاس جاتا ہوں وہاں سے رومی لشکر لیکر آؤں گا اور
(سید عالم محمد) (صہ)
اور ان کے اصحاب کو نکالوں گا یہ خبر پاکر ان لوگوں نے مسجدے ضرار بنائ تھی
اور سید عالم صہ سے عرض کیا تھا یہ مسجد ہم نے آسانی کیلئے بنائ ہے کہ جولوگ بہوڑے ضعیف کمزور ہیں وہ اس میں بہی نماز پڑھ لیا کریں آپ اس میں ایک نماز پڑھ دیجئے اور برکت کے دعا فرما دیجئے
حضور نے فرمایا کہ اب تو میں سفر تبوک کے لیے چلنے کو تیار ہوں واپسی پر اللہ کی مرضی ہو گی تو وہاں نماز پڑھ لوگا جب نبی کریم صہ غزہ تبوک سے واپس ہوکر مدینہ شریف کے قریب ایک گاؤں میں ٹھہرے تو منافقین نے آپ درخواست کی کہ ان کی مسجد میں تشریف لے چلیں. اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کے فاسد ارادوں کا اظہار فرمایا گیا تب رسول اللہ نے بعض کو حکم دیا کہ اس مسجد کو جاکر ڈھا دیں اور جلادیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو عامر راہب ملک شام میں بحالت سفر بے کسی و تنہائی میں ہلاک ہوا.
حضرت سعد رضہ فرماتے ہیں کہ منافقین نے مسجد قبا جیسی مسجد بنانا شروع کی جو مسجد قباء کے قریب تھی پہر ابوعامر راہب کے آنے کا انتظار کرنے لگے جب آئیگا تو اس کو اپنا امام بنائیگے جب اس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ صہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ ہم نے ایک مسجد بنائ ہے آپ صہ اس میں نماز پڑھ لے تاکہ ہم اس کو جاء نماز بنا لے حضور صہ نے اپنے کپڑے لئے تاکہ ان کے ساتھ تشریف لے جائے تو یہ آیت اتری (ولاتقم فیہ ابدا) کہ آپ صہ اس میں کبھی کہڑا نہ ہوں.
أخرج ابن أبي حاتم عن قتادة في قوله:{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا} قال: إن النبي صلی اﷲ علیه وسلم بنی مسجداً بقباء، فعارضه المنافقون بآخر، ثم بعثوا إلیه لیصلي فیه، فاطلع اﷲ نبیه صلی اﷲ علیه وسلم ذلك". (الدر المنثور، سورة التوبة آیت: ۱۰۷، دارالکتب العلمیة بیروت ۳/۴۹۵)